۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/ حضرت میثم (ع) نے کھجورکی تجارت کو اپنا ذریعہ معاش قرار دیا، خدا کو اپنا مقصد سمجھا اور دوسروں کی ہدایت سے پہلے خود کی ایسی ہدایت کی کہ ہادی برحق امام (ع) نے آپ کو اپنے اصحاب خاص میں جگہ کرامت فرمائی۔

تحریر: سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| خطابت فن نہیں بلکہ خدمت ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ نے نبی خدا جناب شعیب علیہ السلام کو “خطیب الانبیاء” کے لقب سے یاد کیا، (تفسیر نور الثقلین، ج ۲، ص ۳۹۴.) ، کیوں کہ آپ نے بہترین اسلوب سے اپنی امت کو توحید و خدا پرستی کی دعوت دی تھی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے خطابت کا اہم مقصد لوگوں کو خدا کی جانب دعوت دینا ہے، عقیدہ توحید کو قوت بخشنا ہے نہ کہ اسے کمزور کرنا ہے یا شک و شبھہ ایجاد کرنا ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو بولنے والا چرب زبان لوگوں کو خدا سے دور کر دے وہ خاطب تو ہو سکتا یے لیکن خطیب ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام نے یزید پلید کے درباری چرب زبان کو ’’ایھاالخاطب‘‘(اے خاطب) کہہ کر مخاطب کیا۔ اگر ہم قرآن کریم اور احادیث معصومین علیہم السلام کی روشنی میں خطابت کے امتیازات اور خطیب کی خصوصیات پر نظر ڈالیں تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔

۱۔ مقصد صرف خدا ہو۔

۲۔ دوسروں کی ہدایت سے پہلے خود کی ہدایت۔

۳۔ بیان مسئلہ چاہے عقائد ہوں، احکام ہوں یا اخلاق، انکا علم ضروری ہے۔

۴۔ قرآن کریم صحیح پڑھنے کے ساتھ ساتھ صحیح سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے۔

۵۔ احادیث معصومین علیہم السلام نہ صرف پڑھنا بلکہ سمجھنا اور اس پر عمل کرنا۔

۶۔ شجاعت تا کہ کسی دباؤ میں بیان تبدیل نہ ہوجائے۔

۷۔ حقائق کے بیان کے نتیجہ میں آنے والی مشکلات اور پریشانیوں پر صبر کا حوصلہ بھی ضروری ہے۔

۸۔ ولایت اہلبیت علیہم السلام سے پورا وجود اس طرح سرشار ہو کہ نہ صرف زبان بلکہ اعمال و کردار سے سیرت آل محمد علیہم السلام بیان ہو۔

۹۔راہ حق میں ایسی ثابت قدمی ہوکہ دنیا اور اس کی خواہشات قدم متزلزل نہ کر سکیں۔ نہ مال دنیا کا شوق بیان کو تبدیل کرے اور نہ ہی مشکلات کا خوف ارادوں کو کمزور کرے۔

۱۰۔ اوپر بیان کئے گئے شرائط اسی وقت وقوع پزیر ہو سکتے ہیں جب انسان صرف اور صرف اللہ پر بھروسہ کرے اور اسی کو اپنے لئے کافی جانے۔

مذکورہ نکات کی روشنی میں جب ہم منبر دار کے وحید و بے نظیر خطیب حضرت میثم تمار علیہ السلام کی زندگی پر نظر کرتے ہیں تو ہمارے لئے نہ صرف واضح بلکہ ہمیں مکمل یقین ہو جاتا ہے کہ آپ میں تمام شرائط بطور اتم و اکمل موجود تھے اور حق ہے کہ رہتی دنیا تک خطباء آپ کو اپنا اسوہ مانیں۔

حضرت میثم علیہ السلام نے کھجورکی تجارت کو اپنا ذریعہ معاش قرار دیا، خدا کو اپنا مقصد سمجھا اور دوسروں کی ہدایت سے پہلے خود کی ایسی ہدایت کی کہ ہادی برحق امام علی علیہ السلام نے آپ کو اپنے اصحاب خاص میں جگہ کرامت فرمائی۔ ظاہر جس طرح اللہ کے نزدیک صاحب کرامت صرف اہل تقویٰ ہیں اسی طرح امام المتقینؑ کی قربت بھی بغیر تقویٰ کے ممکن نہیں ہے۔

اگر ہم حضرت میثم علیہ السلام کی علمی شخصیت پر نظر کریں تو خطیب منبر سلونی کا یہ شاگرد جب فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ پہنچا تو حبر الامہ مفسرین قرآن جناب ابن عباس سے فرمایا کہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں جو کچھ پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لیں۔ جناب ابن عباس نے سوالات کئے جس کے حضرت میثم علیہ السلام نے جوابات دئیے۔ اس واقعہ سے آپ کی علمی جلالت کا پتہ چلتا ہے کہ جناب ابن عباس جیسے عالم و معلم نے آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔

حضرت میثم علیہ السلام جہاں قرآنی علوم کے ماہر اور استاد تھے وہیں آپ محدث بھی تھے کہ لوگوں کو حدیثیں سناتے یہاں تک کہ جب آپ کو سولی دی گئی تو فرمایا: ائے لوگوں جسے بھی میرے مولا ؑ کی حدیثیں سننی ہو وہ سن لے۔ میں تمہیں قیامت تک کے حالات بتاتا ہوں۔ لوگوں کا ایک ہجوم آپ کا بیان سن رہا تھا یہاں تک کہ آپ کی زبان کاٹ دی گئی۔

اس بیان سے جہاں آپ کی عظیم علمی شخصیت عیاں ہوتی ہے وہیں بیان حق خصوصا ولایت اہلبیت علیہم السلام کے سلسلہ میں آپ کا شجاعانہ اقدام اور زندگی کے آخری لمحات تک راہ حق پر ثابت قدمی نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ، بھی ظاہر ہوتا ہے۔

اللہ نے انسان کو زبان دے کر تکلم جیسی نعمت سے نوازا ہے لیکن وہی کلام دل پر اثر کرتا ہے جو دل سے نکلتا ہو ۔وہ خطباء آج بھی زندہ ہیں جنہوں نے اللہ کے لئے کلام کیا اگرچہ ظاہراً لوگوں کے درمیان نہیں ہیں۔ ایک عرصہ گذر جانے کے بعد آج بھی نہ صرف ان کا نام بلکہ بیان بھی باقی ہے۔

اسی کے برخلاف دنیا میں نہ جانے کتنے بے باک بولنے والے تھےجنکو سننے کے لئے لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا لیکن آج وہ ٹنو مٹی کے نیچے دب کر گم نام ہو گئے کیوں کہ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی نعمت زبان کو اپنے لئے استعمال کیا۔اپنی خواہشات کی تکمیل میں مصرف کیا۔ جنکی زبانیں لوگوں کے خوف کے سبب راہ حق سے منحرف ہوئیں اس انحراف نے ان کامقدر تاریک کر دیا ۔ جنکی زبانیں سلاطین ، روساء، امراء کی چاپلوسی میں کام آئیں ناکامی ان کا نصیب ہوا۔

غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر

مجرئی اپنی ہوا کھووں سلیماں ہو کر

تبصرہ ارسال

You are replying to: .